گیت نمبر ۶۸
ناصری کے سوا میں تو کُچھ بھی نہیں
ہو کے اُس سے جُدا میں تو کُچھ بھی نہیں
1

اُس کی راہوں پے چلتا رہوں عمر بھر
بیت جائے یوں ہی زندگی کا سفر
فضل کر تُو عطا میں تو کُچھ بھی نہیں
2

اُس کا رستہ اگرچہ بڑا تنگ ہے
ہر قدم پر مگر وہ میرے سنگ ہے
وہ میرا رہنما میں تو کُچھ بھی نہیں
3

خا ک ہوں خاک میں لوٹنا ہے مُجھے
یہ بدن کا وطن چھوڑنا ہے مُجھے
وہ ٹھکانا میرا میں تو کُچھ بھی نہیں

Scroll to Top